Tuesday, February 4, 2014

غنی خان ۔۔ ایک رومانوی سحر انگیز شخصیت


نزرانہ یوسفزئ

جب ۱۹۲۹ میں غنی خان کو برطانیہ تعلیم کے لئے بیجھا گیا تو برطانوں فلموں کی ایک مشہور اداکارہ غنی خان کے عشق میں گرفتار ہوگئی۔ غنی خان ایک لمبا تڑنگا، خوبرو زہین بھوری انکھوں والا نوجوان بھی اس خوبصورت عورت کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ دونوں کے درمیان محبت کے کچھ خوبصورت  وعدے کئے گئے۔  جو ادھورے ہی رہ گئے۔

غنی خان اج سے ایک صدی پہلے  ۱۹۱۴ میں خان عبدلغفار خان کے گھر پیدا ہوئے۔ غنی خان نے اپنی جوانی ہی میں شاعری کا ٓاغاز کیا اور بہت جلد شہرت حاصل کرلی۔ غنی کی شاعری کے اہم بات پشتونوں کی دشمن کی نشاندہی کرنا تھی اور پھر انہوں نے اسی دشمن کو اپنی شاعری کے زریعے لوگوں کے سامنے بے نقاب کیا ۔ مولوی سے جھگڑا مول لینے کے پاداش میں انکو باغی کہا گیا۔ اپنی شاعری کے زریعے پشتونوں کو جنجوڑ ڈالا۔ غنی خان کو دنیا سے رخصت ہوئے سترہ سال ہوچکے ہیں۔ وہ ہر فن مولا انسان تھے۔ بیک وقت صوفی شاعر، مصور، مفکراور سیاست کے شوقین تھے

غنی خان جہاں بھی جاتے لوگ انکے پر سحر شخصت کے دیوانے ہوجاتے۔ لڑکیاں انکے سحر انگیز زہین انکھوں کی دیوانی ہوجاتی۔

خان عبدلغفار کو غنی خان کے عشق کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے غنی خان کو حکم دیا کہ وہ برطانیہ چھوڑ کر امریکہ تعلیم کے لئے جائے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ غنی خان کو اپنی محبوبہ کے غم نے نڈھال کر دیا اور امریکہ انے کے بعد انہوں نے اپنی برطانوی محبوبہ کی یاد میں شعر لکھے۔ انہوں نے جدائی کے لمحات کا زکر کیا اور لندن میں گزاری ہوئی زندگی کے بارے میں بھی لکھا۔

غنی خان ایک حساس انسان تھے انکو معلوم تھا کہ انکے والد نے انکو امریکہ تعلیم حاصل کرنے اس لئے بیجھا ہے کہ ان سے پشتون افغانوں کے برے حالات سدھارنے کا کام لیا جائے۔ اس لئے غنی خان نے پشتونوں کی خاندانی روایات کو پس پشت نہیں ڈالا اور اپنے عظیم والد صاحب کا مان رکھ لیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ انکو اللہ سے گلہ بھی رہا۔۔ غنی خان کی ایک رباعی کا ترجمعہ کچھ یوں ہے۔

یہ کیسا جذبہ دیا ۔۔ کیسی جوانی بخشی
 خدایا اس جنوني کو کیوں خان پیدا کیا
اب تو مجھے اڑنے کے لئے پر چاہیے
زمیں پر بیج کر، جذبہ اسمانی عطا کیا

غنی خان نے جب دیکھا کہ برطانوی انکے والد اور انکے ساتھیوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں تو انکے جوان خون نے جوش کھایا اور اپنے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ برطانیہ کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہونا چاہیے

باچا خان نے جب اپنے بیٹے کا یہ جوش دیکھا تو وہ اس فکر میں مبتلا ہوگئے کہ وہ خود عدم تشدد کا پرچار کر رہے ہیں اور انکے بیٹے کے جوش کا یہ حال ہے۔ باچا خان نے غنی خان کو جواہر لال نہرو کے پاس بیھج دیا۔ کہ بیٹا امریکا میں رہ کر اپنے معاشرے کے اداب بھول گیا ہے۔  جواہر لال نہرو کے پاس رہتے ہوئے بھی انکے پیچھے لوگ دیوانے ہوگئے۔ یہاں بھی غنی نے بہت کچھ سیکھا۔لیکن انکے دل میں ازادی کی اگ بھڑکتی رہی اور
 وہ اپنے والد صاحب کو بعد میں بھی انگریزوں کے خلاف لڑنے کا کہتے رہے۔

غنی خان کی زندگی کا رومانوی رنگ انکی شاعری سے  چھلکتا ہے۔ غنی خان کو جنت کی حور کا تصور کچھ زیادہ نہیں بھایا۔ انہوں نے  اپنی محبوبہ کو حور کے مقابلے میں منتخب کیا۔  اور انکا یہی انداز دور حاضر کی خواتین کو بہت بھاتا ہے۔

( ترجمعہ)
“ملا کہتا ہے کہ جنت کی حور موٹی تازی ، سرخ سفید  ہوگی۔ لیکن مجھے اپنی محبوبہ کے سامنے جنت کی حور اچھی نہیں لگتی”

غنی خان کو ہندوستان میں ایک حسین لڑکی روشان نے اپنی طرف مایل کیا تو اس دفعہ غنی خان محبت کی اگ میں اس طرح پھنسے کہ انہوں نے روشان کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ باچا خان کو بھی اس دفعہ غنی خان کی پسند پر اعتراض نہیں ہوا۔ کیونکہ اب بیٹے کی شادی کی عمر اچکی تھی۔

 غنی خان نے روشان کے محبت ہی کے سہارے جیل کے کھٹن رات دن بسر کیے۔ غنی خان جیل میں تھے کہ انکو خبر ملی کہ انکے ہاں بیٹا “فریدون” پیدا ہوا ہے،  تب غنی خان اپنی بیوی سے کچھ یوں اظہار عشق میں،  روشان کیطرف سے خود ہی کو ایک خط لکھ دیتے ہیں۔

میں تمہارے عشق کے جنون میں تمہارے لئے خوشیوں کا ساماں کرگئی ہوں ، ایک اور دنیا بنا گئی ہوں۔ اج میں نے اپنی محبت کو ثابت کر دیا ۔۔ تمہارے سارے گلے شکوے دور کردئے
غنی خان نے اپنی شریک سفر سے بہت ساری نظموں اور غزلوں میں اپنی محبت کا بھر پور اظہار کیا ہے۔ ایک جگہ روشان کی محبت میں اپنا ماضی ، حال دنیا اخرت سب کچھ بھلا کر کہتے ہیں

“میں نے تمہیں اپنا سب کچھ دے دیا ہے
محبت میں نے صرف تم ہی سے کی ہے
میں نے تمہارے لئے کعبے کو بھلا دیا ہے
 تمہاری شال میں لپٹا ۔۔ حور کو نہیں دیکھتا

غنی خان جتنا اپنی زندگی میں اپنی پرکشش شخصیت کی وجہ سے خواتین میں مقبول تھے اج گزرنے کے اتنے سال بعد بھی ویسے ہی مقبول ہے. غنی خان ایک طرف عورت کو حور سے زیادہ پرکشش سمجھتے ہے تو دوسری طرف عورت کو گناہوں کا جڑ سمجھنے والے مولوی کو بھی خوب سناتے ہیں۔ یہ غنی خان کی ایک اور ادا ہے جو عورتوں کو بہت بھاتی ہے۔
انکو مولوی معاشرے میں ایک ظاہری رکھ رکھاو والی دوغلی قسم کی شخصیت نظر اتی ہے۔

اپنا دل تھالی میں رکھ کر
 
میں مولوی کے پاس مسجد گیا
انکے قدموں میں دل رکھ کر
 میں بولا یہی میرا صدقہ ہے
مولوی نے منہ پھیر لیا
کہا ! یہ کیا لیکر ائے ہو
نہ تو یہ  پلاو ہے نہ فرنی
نہ ہی فالودہ اور نہ ہی حلوہ
دنیا ظاہر پر یقین رکھتی ہے
او ظاہرہَ تم فاسق ہو

غنی خان کی زندگی کے کچھ خوبصورت پہلو میں سے ایک انکا عشق مجازی پر یقین اور اپنا اپ نچھاور کرنا تھا۔ غنی خان کا جنون ، انکی محبت  انکے سیاسی مفکورے کوبھی پر کشش بناتا ہے۔غنی خان کی شاعری بذاتِ خود انقلاب ہے