Wednesday, March 19, 2014

Bakhshu

بخشو کے ارادے کالے ہے بخشو نے سب سانپ پالے ہے یہ بچے اپنے کھاتا ہے خود اپنی موت پر ناچتا ہے اپنے ہی ہاتھ پیر کاٹے ہیں بخشو کے گن نرالے ہے

Tuesday, February 4, 2014

غنی خان ۔۔ ایک رومانوی سحر انگیز شخصیت


نزرانہ یوسفزئ

جب ۱۹۲۹ میں غنی خان کو برطانیہ تعلیم کے لئے بیجھا گیا تو برطانوں فلموں کی ایک مشہور اداکارہ غنی خان کے عشق میں گرفتار ہوگئی۔ غنی خان ایک لمبا تڑنگا، خوبرو زہین بھوری انکھوں والا نوجوان بھی اس خوبصورت عورت کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ دونوں کے درمیان محبت کے کچھ خوبصورت  وعدے کئے گئے۔  جو ادھورے ہی رہ گئے۔

غنی خان اج سے ایک صدی پہلے  ۱۹۱۴ میں خان عبدلغفار خان کے گھر پیدا ہوئے۔ غنی خان نے اپنی جوانی ہی میں شاعری کا ٓاغاز کیا اور بہت جلد شہرت حاصل کرلی۔ غنی کی شاعری کے اہم بات پشتونوں کی دشمن کی نشاندہی کرنا تھی اور پھر انہوں نے اسی دشمن کو اپنی شاعری کے زریعے لوگوں کے سامنے بے نقاب کیا ۔ مولوی سے جھگڑا مول لینے کے پاداش میں انکو باغی کہا گیا۔ اپنی شاعری کے زریعے پشتونوں کو جنجوڑ ڈالا۔ غنی خان کو دنیا سے رخصت ہوئے سترہ سال ہوچکے ہیں۔ وہ ہر فن مولا انسان تھے۔ بیک وقت صوفی شاعر، مصور، مفکراور سیاست کے شوقین تھے

غنی خان جہاں بھی جاتے لوگ انکے پر سحر شخصت کے دیوانے ہوجاتے۔ لڑکیاں انکے سحر انگیز زہین انکھوں کی دیوانی ہوجاتی۔

خان عبدلغفار کو غنی خان کے عشق کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے غنی خان کو حکم دیا کہ وہ برطانیہ چھوڑ کر امریکہ تعلیم کے لئے جائے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ غنی خان کو اپنی محبوبہ کے غم نے نڈھال کر دیا اور امریکہ انے کے بعد انہوں نے اپنی برطانوی محبوبہ کی یاد میں شعر لکھے۔ انہوں نے جدائی کے لمحات کا زکر کیا اور لندن میں گزاری ہوئی زندگی کے بارے میں بھی لکھا۔

غنی خان ایک حساس انسان تھے انکو معلوم تھا کہ انکے والد نے انکو امریکہ تعلیم حاصل کرنے اس لئے بیجھا ہے کہ ان سے پشتون افغانوں کے برے حالات سدھارنے کا کام لیا جائے۔ اس لئے غنی خان نے پشتونوں کی خاندانی روایات کو پس پشت نہیں ڈالا اور اپنے عظیم والد صاحب کا مان رکھ لیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ انکو اللہ سے گلہ بھی رہا۔۔ غنی خان کی ایک رباعی کا ترجمعہ کچھ یوں ہے۔

یہ کیسا جذبہ دیا ۔۔ کیسی جوانی بخشی
 خدایا اس جنوني کو کیوں خان پیدا کیا
اب تو مجھے اڑنے کے لئے پر چاہیے
زمیں پر بیج کر، جذبہ اسمانی عطا کیا

غنی خان نے جب دیکھا کہ برطانوی انکے والد اور انکے ساتھیوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں تو انکے جوان خون نے جوش کھایا اور اپنے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ برطانیہ کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہونا چاہیے

باچا خان نے جب اپنے بیٹے کا یہ جوش دیکھا تو وہ اس فکر میں مبتلا ہوگئے کہ وہ خود عدم تشدد کا پرچار کر رہے ہیں اور انکے بیٹے کے جوش کا یہ حال ہے۔ باچا خان نے غنی خان کو جواہر لال نہرو کے پاس بیھج دیا۔ کہ بیٹا امریکا میں رہ کر اپنے معاشرے کے اداب بھول گیا ہے۔  جواہر لال نہرو کے پاس رہتے ہوئے بھی انکے پیچھے لوگ دیوانے ہوگئے۔ یہاں بھی غنی نے بہت کچھ سیکھا۔لیکن انکے دل میں ازادی کی اگ بھڑکتی رہی اور
 وہ اپنے والد صاحب کو بعد میں بھی انگریزوں کے خلاف لڑنے کا کہتے رہے۔

غنی خان کی زندگی کا رومانوی رنگ انکی شاعری سے  چھلکتا ہے۔ غنی خان کو جنت کی حور کا تصور کچھ زیادہ نہیں بھایا۔ انہوں نے  اپنی محبوبہ کو حور کے مقابلے میں منتخب کیا۔  اور انکا یہی انداز دور حاضر کی خواتین کو بہت بھاتا ہے۔

( ترجمعہ)
“ملا کہتا ہے کہ جنت کی حور موٹی تازی ، سرخ سفید  ہوگی۔ لیکن مجھے اپنی محبوبہ کے سامنے جنت کی حور اچھی نہیں لگتی”

غنی خان کو ہندوستان میں ایک حسین لڑکی روشان نے اپنی طرف مایل کیا تو اس دفعہ غنی خان محبت کی اگ میں اس طرح پھنسے کہ انہوں نے روشان کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ باچا خان کو بھی اس دفعہ غنی خان کی پسند پر اعتراض نہیں ہوا۔ کیونکہ اب بیٹے کی شادی کی عمر اچکی تھی۔

 غنی خان نے روشان کے محبت ہی کے سہارے جیل کے کھٹن رات دن بسر کیے۔ غنی خان جیل میں تھے کہ انکو خبر ملی کہ انکے ہاں بیٹا “فریدون” پیدا ہوا ہے،  تب غنی خان اپنی بیوی سے کچھ یوں اظہار عشق میں،  روشان کیطرف سے خود ہی کو ایک خط لکھ دیتے ہیں۔

میں تمہارے عشق کے جنون میں تمہارے لئے خوشیوں کا ساماں کرگئی ہوں ، ایک اور دنیا بنا گئی ہوں۔ اج میں نے اپنی محبت کو ثابت کر دیا ۔۔ تمہارے سارے گلے شکوے دور کردئے
غنی خان نے اپنی شریک سفر سے بہت ساری نظموں اور غزلوں میں اپنی محبت کا بھر پور اظہار کیا ہے۔ ایک جگہ روشان کی محبت میں اپنا ماضی ، حال دنیا اخرت سب کچھ بھلا کر کہتے ہیں

“میں نے تمہیں اپنا سب کچھ دے دیا ہے
محبت میں نے صرف تم ہی سے کی ہے
میں نے تمہارے لئے کعبے کو بھلا دیا ہے
 تمہاری شال میں لپٹا ۔۔ حور کو نہیں دیکھتا

غنی خان جتنا اپنی زندگی میں اپنی پرکشش شخصیت کی وجہ سے خواتین میں مقبول تھے اج گزرنے کے اتنے سال بعد بھی ویسے ہی مقبول ہے. غنی خان ایک طرف عورت کو حور سے زیادہ پرکشش سمجھتے ہے تو دوسری طرف عورت کو گناہوں کا جڑ سمجھنے والے مولوی کو بھی خوب سناتے ہیں۔ یہ غنی خان کی ایک اور ادا ہے جو عورتوں کو بہت بھاتی ہے۔
انکو مولوی معاشرے میں ایک ظاہری رکھ رکھاو والی دوغلی قسم کی شخصیت نظر اتی ہے۔

اپنا دل تھالی میں رکھ کر
 
میں مولوی کے پاس مسجد گیا
انکے قدموں میں دل رکھ کر
 میں بولا یہی میرا صدقہ ہے
مولوی نے منہ پھیر لیا
کہا ! یہ کیا لیکر ائے ہو
نہ تو یہ  پلاو ہے نہ فرنی
نہ ہی فالودہ اور نہ ہی حلوہ
دنیا ظاہر پر یقین رکھتی ہے
او ظاہرہَ تم فاسق ہو

غنی خان کی زندگی کے کچھ خوبصورت پہلو میں سے ایک انکا عشق مجازی پر یقین اور اپنا اپ نچھاور کرنا تھا۔ غنی خان کا جنون ، انکی محبت  انکے سیاسی مفکورے کوبھی پر کشش بناتا ہے۔غنی خان کی شاعری بذاتِ خود انقلاب ہے







Thursday, January 23, 2014

مجھے یقین ہے

مجھے یقین ہے کہ طالب نے کبھی ماں کو مردہ بیٹے کے سرہانے روتے بلکتے نہیں دیکھا نئی نویلی دلہن کی مانگ اجڑتے نہیں دیکھا مجھے یقین ہے اس ظالم اس جابر نے
کسی بچے کو
باپ کے انتظار میں رورر کر
تکیے پر سر رکھ کر سوتے نہیں دیکھا
مجھے یقین یے
اس وحشی نے
کسی بہین کو بھائی کو شادی کا سحرا باندھنے
کے خواب کو اجڑتے نہیں دیکھا مجھے یقین ہے ۔۔۔۔ مگر مجھے یہ بھی یقین ہے
وہ صبح ضرور ہوگی
کہ جس صبح کی امید کو ڈھلتے نہیں دیکھا

Wednesday, January 22, 2014

جنت کی حور خود کش سے

وہ جو نفرتوں میں پھلے بڑھے
جو محبتوں سے ڈرے ہوئے
جنہیں جستجوِ بہشت بہت
جنہیں ارزہِ شراب ہے
جنہیں خدا سے زیادہ عزیز ہے
زلفِ حور کجھور اور رسِ انگور
جنکو ارزہ فراق حور
میرے شہر کا خون بیجا کیا
میرے گلستان کا مقدر
شبِ ظلمتوں سا سیاہ کیا
میرےجسم کے بھکرےعضو
اپنے خوشیوں کا سودا کیا
میرے بچے کا سر کٹا بدن
اپنی حوس کا سامان کیا

مجھے جنت کی حور کا یقین ہے
جب وہ ڈالی گی ایک نگاہ اگر
جو مار کر ہزاروں بیگناہ
اسکے در میں ہو سوالی کھڑا
اور لہو سے ہاتھ رنگین ہو
حور بولے گی۔۔  تم ہزید تم فرعون۔۔
تم سے بولنا اگر چہ گوارا نہیں
وحشیوں کا یہاں کچھ ٹھکانہ نہیں 





Tuesday, January 21, 2014

No Operation No Negotiations - Stop Supporting Taliban

Why Operation is not a solution?
During the Swat operation, almost all of the local people had to suffer heavy losses. The curfew, which was imposed for more than two-year time, led to the collapse of the economy. The houses and shops of common people were demolished; more than 420 schools were blown up. People were killed, beheaded and were forced to migrate without any prior warning by the Army, but with starting heavy shelling over the populous city of Mingora.
I have also written in one of my previous article about “Swat operation” as to how dozens of leaders, some of whom belonged to the ANP, were killed despite army`s claims of “successful” restoration of peace in the Swat valley.
Most of the tribal people have had enough of war, slaughter and migration from one area to another. They have languished from one place to another in search of peace and protection of their lives. If the Swat operation model is emulated, the human losses would be beyond imagination. Unfortunately, the number of people who were killed throughout the five-year long militancy and operation is not available due to the lack of access to those areas during militancy.
Most importantly, leaders of the Swat Taliban Mullah Fazlullah and Sufi Muhammad mysteriously disappeared from the scene that left the Swatis in a constant fear of the Taliban’s reemergence.
Why negotiations are not a good option?
The Taliban is not a single group operating under one roof. The militancy has spread across Khyber Pakhtunkhwa and also in other parts of Pakistan. The Tehreek-e-Taliban Pakistan (TTP) has become a franchise that offers its support to small militants groups across the country. To identify the main group that controls the other small group is almost impossible. For instance, in the recent Church attack, the TTP denied responsibility and said another group, Jundullah, was actually behind the attack. Imran Khan, Nawaz Sharif and other leaders must answer these questions before brokering any deals with the Taliban.
  · The Tehrek-e-Taliban Pakistan is considered the most important for negotiation; but if groups like Jandullah are able to carry out such big attacks then what happens if we only talk to TTP?
       · Who are the leaders of the different groups? Who is going to identify and bring them to the negotiation table?
       · Are Pakistanis ready to recognize them as a legitimate stakeholder?
       · What agreements and promises of the past did the Taliban fulfill?
       · Is the State ready to forgive the Taliban for fifty thousand murders?
       · Will the families of victims of Taliban atrocities be consulted in this 
process?
       · What compromises is Pakistan going to make to please the Taliban, 
especially compromises that were not made in the past. 
Finally, political parties and Pakistan forces need to come up with a solution after remaining divided for almost a decade on these major issues that led to the loss of thousands innocent lives. Why is it not possible for Pakistani political parties to build a relationship to engage in frank discussions on sensitive issues, particularly key issues on which they disagree with each other? These are important matters and misunderstanding among political parties can culminate in a miscalculation and terrible results that cause unbearable consequences for innocent people.

Sunday, January 19, 2014

محبتوں کے شہرسوات میں چھاونی


تحریر: نذرانہ یوسفزئی
‘‘ اپنے پیچھے دروازہ کھلاچھوڑ جا،بیٹا’’
میرے گھر سے نکلتے وقت امی کی یہ آواز میرا پیچھا ضرور کرتی۔  امی مجھے ہمیشہ ’’بیٹا ‘‘ہی کہہ کر بلاتی ہے۔ وہ کہتی  ہیں کہ مجھے تم  پر فخر ہے اس لیے میں پیار سے تمہیں بیٹا بلاتی ہوں۔ میرا کبھی کبھی جی ضرور چاہتا تھا کہ امی کبھی میرے بھائی کو پیار سے’’ بیٹی ‘‘کہہ کر بھی بلایں لیکن مجھے امی سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ امی نے خود ایک ایسے معاشرے میں آنکھ کھولی جہاں پر انہوں نے ہمیشہ مردوں کو عورتوں سے بہتر سمجھا۔
’’اچھا امی ، واپسی پر میں نے انیلا کے گھر جانا ہے‘‘۔
میں نے جواب دیا
یہ سن کر امی کا یہ جواب، ’’آج پھر ادھر جارہی ہو۔ تم لوگ پڑھتے نہیں ہو۔ سارا دن گپیں لگاتے ہو‘‘ میں سنے بغیر ہی نکل آئی ۔
میں سوات کے سیدو شریف شہر کی کالج کی فرسٹ ایر کی طالبہ تھی۔ میں نے سوات میں کبھی کوئی طالبان ،فوج اور انکے حامیوں کے بارے میں نہیں سنا تھا۔ کالج پہنچ کر بارہ بجے کا بے صبری سے انتظار کیا جاتا تھا کیونکہ تب ہماری بریک ہوتی ۔ بریک میں ہم سب سہیلیاں مل کر کرکٹ  کھیلتے
پڑھائی کم اور ہنسنا کھیلنا زیادہ ۔۔ یہی میرا اور میری  کچھ اور سہیلیوں کے کا کالج کا معمول تھا۔ ہم دوست کبھی کبھار کالج کے بعدایک دوسرے  کے گھرآتے جاتے۔
چھٹی کے روز گھر والوں کے ساتھ مالم جبہ ، کالام وغیرہ کی سیر ہوتی۔ اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ  کچھ دوست آپس میں ملکر کہیں پکنک کا پروگرام بناتے اور ہم سب پکنک منانے جاتے۔
شاپنگ کے لئے عورتوں کے مشہور مارکیٹ چینہ بازار میں خریداری کرتے۔ عورتوں پر پابندی کا اس حد تک سنا تھا کہ بازاروں میں منہ اچھی طرح سے ڈھانپ کر نکلنا چاہیے اور عورتیں ضرورت کے وقت ہی نکل سکتی  ہیں یہ اور بات ہے کہ  مجھے اور میری بہنوں کی اور اس طرح اور بھی عورتوں کی ضروریات زیادہ تھی۔ روز روز کی شاپنگ اور نت نئے کپڑے بنوانا ہماری زندگی کا مقصد تھا۔
مجھے لگتا ہے کہ سوات کی ۲۰۰۷ سال سے پہلے کی زندگی بے حد خوبصورت تھی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ سوات کے پاک دامن پر ملا صوفی محمد کا دھبہ ضرور لگا ہوا ہے۔ لیکن صوفی محمد کو بھی انہی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا جنکے لئے بعد میں اسی کے داماد کو کیا گیا۔
پچھلے چھ سالوں نے ہمارے سوات کا نقشہ بدل دیا۔ فضل اللہ کے پیچھے آنے والی پاکستان کی فوج نے سوات کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنانے کی پتہ نہیں کب سے ٹھان لی تھی لیکن یہ فیصلہ بہت پرانا تھا۔ کیونکہ میرے ابو آج سے تقریبا کوئی ۱۵ سال پہلے جب کانجو کے علاقے میں زمین خریدنا چاہ رہے تھے تب انکو ایک دوست نے کہا تھا “ وہاں فوج کا چھاونی بنانے کا  ارادہ ہے   اسلئے وہاں کچھ مت  خریدنا‘‘۔
یہ بات صرف میرے ابا کے دوست ہی نے نہیں کہی بلکہ  اور بھی بہت سارے سواتی ہیں جنہوں نے یہ بات سنی تھی۔
۲۰۰۷ سوات سے جڑی تمام خوبصورت یادیں ہمیشہ کہیں تاریخ کے دریچوں میں دفن ہوگئی لیکن مجھے یاد ہے تو یہ کہ  فضل اللہ کے ساتھیوں نے سوات کے مظلوم اور بے بس لوگوں ذبح کرکے لٹکایا تھا۔ اور پھر اس ظالم کے پیچھے آنے والی فوج کا کردار بھی ہمیشہ یاد رہیگا
سوات میں امن کے قیام کے تین سال مکمل  ہوگئے ہیں۔ لیکن اس امن کی معنی ہی مختلف ہے۔ چلیں ہم بھی آنکھیں بند کر کے مان ہی لیتے ہےکہ پاکستان کی فوج نے جو کیا وہ اچھی نیت سے کیا اور سوات میں واقعی طالبان کو شکست ہوئی لیکن فضل اللہ کا زندہ بچ کے نکلنا اور پھر ملالہ یوسفزئ کی بین الاقوامی شہرت کے بعد طالبان کے رہنما کی  ہلاکت کے نتیجے میں  انکا تحریک طالبان کے رہنما کے طور پر سامنے انا کچھ مضحکہ خیز ہی لگتا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملالہ کی شہرت میں طالبان اپنا حصہ وصول کرنے آگئے تھے جس دن تحریک طالبان نے فضل ا للہ کو تحریک کے رہنما کے طور پر نامزد کر دیا  اس دن امریکہ اور باقی دنیا کے مشہور اخبارات میں فضل للہ کا تذکرہ ملالہ کے نام کے ساتھ کیا گیا۔
باقی دنیا کی طرح سوات میں بھی اس فیصلے کے بعد خوف کی لہر دوڑ گئی ۔ لوگ ڈررہے تھے کہ کہیں فضل اللہ سوات واپس نہ آجائے اور سوات کے حالات اک بار پھراس حد تک خراب نہ ہوجائیں کہ انھیں سوات بدر ہونا پڑے۔ کچھ دن بعد پھر فضل اللہ کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ وہ سوات کو بطور تحریک طالبان ہیڈ کواٹر استعمال کرینگے۔
 پاکستان کی فوج انہی حالات میں سوات کو چھاونی بنانے کا فیصلہ کرتی ہے۔  اب ان حالات میں دنیا تو پاکستان فوج کے اس فیصلے کی متوالی ہوجائےگی ناں۔

رشتہ ممکن ہے


حمید کو شکیلہ سے عشق ہوگیا۔ شکیلہ نے حمید کے رشتے سے انکار کیا اور دوسری جگہ شادی کرلی۔ اب وہ ہر سال ایک بچہ  پیدا کر رہی ہے اور ساتھ ہی حمید کو ایک ہیغام بیج رہی ہے میں کنواری ہوں ،، تم عشق اور امید زندہ رکھنا  رشتہ اب بھی ہوسکتا ہے۔
حمید کا دوسرا نام پاکستان ہے اور شکیلہ طالبان۔