Wednesday, January 22, 2014

جنت کی حور خود کش سے

وہ جو نفرتوں میں پھلے بڑھے
جو محبتوں سے ڈرے ہوئے
جنہیں جستجوِ بہشت بہت
جنہیں ارزہِ شراب ہے
جنہیں خدا سے زیادہ عزیز ہے
زلفِ حور کجھور اور رسِ انگور
جنکو ارزہ فراق حور
میرے شہر کا خون بیجا کیا
میرے گلستان کا مقدر
شبِ ظلمتوں سا سیاہ کیا
میرےجسم کے بھکرےعضو
اپنے خوشیوں کا سودا کیا
میرے بچے کا سر کٹا بدن
اپنی حوس کا سامان کیا

مجھے جنت کی حور کا یقین ہے
جب وہ ڈالی گی ایک نگاہ اگر
جو مار کر ہزاروں بیگناہ
اسکے در میں ہو سوالی کھڑا
اور لہو سے ہاتھ رنگین ہو
حور بولے گی۔۔  تم ہزید تم فرعون۔۔
تم سے بولنا اگر چہ گوارا نہیں
وحشیوں کا یہاں کچھ ٹھکانہ نہیں 





No comments:

Post a Comment