Saturday, January 11, 2014

اعتزاز حسن کا مقدمہ کون لڑیگا

پاکستان کے ایک چھوٹے اور پسماندہ علاقے ہنگو کے ایک نوجوان نے پشتونوں کی بہادری او امن پسندی کی یاد ایک دفع پھر سے تازہ کردی ہے۔ اس پندرہ سالہ بچے نے پلک جھپکتے ہی ہزاروں شاگردوں کی جان بچانے کا فیصلہ کیااور اپنی جان گنوا بیٹھا
پاکستان اور دینا بھر سے لوگوں نے اس ننھے بہادر ہیرو کو خراج عقیدت پیش کیا اور حکومت پاکستان سے اس بچے  کی والدین کی مدد کی درخواست کی ۔ جو کہ نہایت خوش ایند بات ہے۔ لیکن کیا اعتزاز کی قربانی یہاں تک اکے ختم ہونے چاہیے۔
کسی کی قربانی کو ماننا اور اسکی بہادری کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ  اس پر حملہ کرنے والوں کو دشمن مانا جاتا ہیں۔ دشمن سے لڑنے والا ہیرو ہوتا ہے۔ دشمن سے لڑ کر مرنے والا شہید ہوتا ہے۔ لیکن کیا ہم طالبانوں کو دشمن مانتے ہیں۔ایک طرف پاکستان کی ایجنسیاں انکو مختلف محازوں پر اپنے ساے تلے لڑوارہیں ہیں تو دوسری طرف پاکستان کی سیاسی پارٹیاں طالبان کے ساے تلے اپنی مرضی کے نتائج لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جو سانپ انہوں نے افغانستان کو کاٹنے کے لئے پالے تھے اس سانپ نے جب پختونخوا کو ڈسنا شروع کیا تب بھی اپکو فائدہ ہوا۔ جب شیعہ کو مارا تب بھی اپکا فایدہ ہوا۔ اگر کسی گرجاگر کومار گرایا اور سینکڑوں مسیحی بھاییوں کو ڈسا تب بھی اپکا فایدہ ہی ہوا۔۔ لیکن اس سانپ کو اب ڈسنے کی عادت ہوگئ ہے۔ کل کو خدانخواستہ اپکو ڈسنے والا ہے۔ لیکن پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔ 

جب ہم یہ مانتے ہیں کہ دشمن ہماری جان کے پیچھے پڑا ہے۔ وہ شیعہ کو سنی بن کر مار رہا ہے۔ سنی کو شیعہ بن کر ۔احمدی کو مسلمان بن کر اور ہزراوں بیگناہ لوگوں کو امریکا اور نہ جانے کہاں کہاں کا ایجنٹ بنا کر مار رہے ہیں۔ 
لیکن ایک سرسری نظر سے اگر دیکھا جائے تو یہ سارے قاتل ہے، انکا مذہب انسانیت کی تضحیک اور تمسخر اڑانا ہے لہذا ہم سب انکے خلاف ایک ہو کر اواز اٹھاہینگے
بات نکلتے نکلتے دور تک نہ چلی جائے اس لیے اعتزاز ہی کی بات پر واپس اجاتے ہیں۔ اعتزاز حسن کی بہادری کو سلام کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ حکومت کو اعتزاز کے قاتل کے خلاف جانا ہوگا۔ بے شک سامنے والا خودکش تھا اور اسکو پکڑنے کےلئے خود مرا نہیں جاسکتا لیکن اسکے پیچھے غاروں میں جو لوگ بیٹھے ہیں۔ انکے پیچھے جانا ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف اور نوازشریف کا فرض بنتا ہے اور ہم ان سے امید رکھتے ہیں  کہ ہمارے قتل عام کا مقدمہ درج کیا جائے
اعتزاز کی قاتل سے بات چیت کے بجاے اس بچے کی قربانی کو رائگاں نہیں جانا چاہیے ۔۔ ہمارے شہید کے خون کا احترام ہونا چاہیے، اور اسکے قاتلوں کو وہی سزا دی جائے جن کا یہ لوگ مستحق ہے
 اگر ہم ایک دفعہ پھر طالبان کا ظلم کو برداشت کرکے ، چپ سادھ کے نظر انداز کردیتیں ہے۔ اسکا کیا فایدہ ہوگا؟
اج ایک اعتزاز نے خود شہادت گلے سے لگا کر ہزاروں گھروں کو بیٹا محروم ہونے سے بچایا ہے۔ لیکن اعتزاز نادر ہوتے ہیں۔ سالوں میں ، صدیوں میں ایک پیدا ہوتے ہیں۔ اور دشمن ہر روز حملہ اور ہورہیں ہیں۔ پاکستان کی فوج اور سیاستدانوں کو اج فیصلہ کرنا . 
ہی ہوگا ہمیں  ان دشمنوں سے بچانا ہی ہوگا
قاتل کو انصاف کے کٹہرے میں لانا 

No comments:

Post a Comment