Sunday, January 19, 2014

محبتوں کے شہرسوات میں چھاونی


تحریر: نذرانہ یوسفزئی
‘‘ اپنے پیچھے دروازہ کھلاچھوڑ جا،بیٹا’’
میرے گھر سے نکلتے وقت امی کی یہ آواز میرا پیچھا ضرور کرتی۔  امی مجھے ہمیشہ ’’بیٹا ‘‘ہی کہہ کر بلاتی ہے۔ وہ کہتی  ہیں کہ مجھے تم  پر فخر ہے اس لیے میں پیار سے تمہیں بیٹا بلاتی ہوں۔ میرا کبھی کبھی جی ضرور چاہتا تھا کہ امی کبھی میرے بھائی کو پیار سے’’ بیٹی ‘‘کہہ کر بھی بلایں لیکن مجھے امی سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ امی نے خود ایک ایسے معاشرے میں آنکھ کھولی جہاں پر انہوں نے ہمیشہ مردوں کو عورتوں سے بہتر سمجھا۔
’’اچھا امی ، واپسی پر میں نے انیلا کے گھر جانا ہے‘‘۔
میں نے جواب دیا
یہ سن کر امی کا یہ جواب، ’’آج پھر ادھر جارہی ہو۔ تم لوگ پڑھتے نہیں ہو۔ سارا دن گپیں لگاتے ہو‘‘ میں سنے بغیر ہی نکل آئی ۔
میں سوات کے سیدو شریف شہر کی کالج کی فرسٹ ایر کی طالبہ تھی۔ میں نے سوات میں کبھی کوئی طالبان ،فوج اور انکے حامیوں کے بارے میں نہیں سنا تھا۔ کالج پہنچ کر بارہ بجے کا بے صبری سے انتظار کیا جاتا تھا کیونکہ تب ہماری بریک ہوتی ۔ بریک میں ہم سب سہیلیاں مل کر کرکٹ  کھیلتے
پڑھائی کم اور ہنسنا کھیلنا زیادہ ۔۔ یہی میرا اور میری  کچھ اور سہیلیوں کے کا کالج کا معمول تھا۔ ہم دوست کبھی کبھار کالج کے بعدایک دوسرے  کے گھرآتے جاتے۔
چھٹی کے روز گھر والوں کے ساتھ مالم جبہ ، کالام وغیرہ کی سیر ہوتی۔ اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ  کچھ دوست آپس میں ملکر کہیں پکنک کا پروگرام بناتے اور ہم سب پکنک منانے جاتے۔
شاپنگ کے لئے عورتوں کے مشہور مارکیٹ چینہ بازار میں خریداری کرتے۔ عورتوں پر پابندی کا اس حد تک سنا تھا کہ بازاروں میں منہ اچھی طرح سے ڈھانپ کر نکلنا چاہیے اور عورتیں ضرورت کے وقت ہی نکل سکتی  ہیں یہ اور بات ہے کہ  مجھے اور میری بہنوں کی اور اس طرح اور بھی عورتوں کی ضروریات زیادہ تھی۔ روز روز کی شاپنگ اور نت نئے کپڑے بنوانا ہماری زندگی کا مقصد تھا۔
مجھے لگتا ہے کہ سوات کی ۲۰۰۷ سال سے پہلے کی زندگی بے حد خوبصورت تھی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ سوات کے پاک دامن پر ملا صوفی محمد کا دھبہ ضرور لگا ہوا ہے۔ لیکن صوفی محمد کو بھی انہی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا جنکے لئے بعد میں اسی کے داماد کو کیا گیا۔
پچھلے چھ سالوں نے ہمارے سوات کا نقشہ بدل دیا۔ فضل اللہ کے پیچھے آنے والی پاکستان کی فوج نے سوات کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنانے کی پتہ نہیں کب سے ٹھان لی تھی لیکن یہ فیصلہ بہت پرانا تھا۔ کیونکہ میرے ابو آج سے تقریبا کوئی ۱۵ سال پہلے جب کانجو کے علاقے میں زمین خریدنا چاہ رہے تھے تب انکو ایک دوست نے کہا تھا “ وہاں فوج کا چھاونی بنانے کا  ارادہ ہے   اسلئے وہاں کچھ مت  خریدنا‘‘۔
یہ بات صرف میرے ابا کے دوست ہی نے نہیں کہی بلکہ  اور بھی بہت سارے سواتی ہیں جنہوں نے یہ بات سنی تھی۔
۲۰۰۷ سوات سے جڑی تمام خوبصورت یادیں ہمیشہ کہیں تاریخ کے دریچوں میں دفن ہوگئی لیکن مجھے یاد ہے تو یہ کہ  فضل اللہ کے ساتھیوں نے سوات کے مظلوم اور بے بس لوگوں ذبح کرکے لٹکایا تھا۔ اور پھر اس ظالم کے پیچھے آنے والی فوج کا کردار بھی ہمیشہ یاد رہیگا
سوات میں امن کے قیام کے تین سال مکمل  ہوگئے ہیں۔ لیکن اس امن کی معنی ہی مختلف ہے۔ چلیں ہم بھی آنکھیں بند کر کے مان ہی لیتے ہےکہ پاکستان کی فوج نے جو کیا وہ اچھی نیت سے کیا اور سوات میں واقعی طالبان کو شکست ہوئی لیکن فضل اللہ کا زندہ بچ کے نکلنا اور پھر ملالہ یوسفزئ کی بین الاقوامی شہرت کے بعد طالبان کے رہنما کی  ہلاکت کے نتیجے میں  انکا تحریک طالبان کے رہنما کے طور پر سامنے انا کچھ مضحکہ خیز ہی لگتا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملالہ کی شہرت میں طالبان اپنا حصہ وصول کرنے آگئے تھے جس دن تحریک طالبان نے فضل ا للہ کو تحریک کے رہنما کے طور پر نامزد کر دیا  اس دن امریکہ اور باقی دنیا کے مشہور اخبارات میں فضل للہ کا تذکرہ ملالہ کے نام کے ساتھ کیا گیا۔
باقی دنیا کی طرح سوات میں بھی اس فیصلے کے بعد خوف کی لہر دوڑ گئی ۔ لوگ ڈررہے تھے کہ کہیں فضل اللہ سوات واپس نہ آجائے اور سوات کے حالات اک بار پھراس حد تک خراب نہ ہوجائیں کہ انھیں سوات بدر ہونا پڑے۔ کچھ دن بعد پھر فضل اللہ کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ وہ سوات کو بطور تحریک طالبان ہیڈ کواٹر استعمال کرینگے۔
 پاکستان کی فوج انہی حالات میں سوات کو چھاونی بنانے کا فیصلہ کرتی ہے۔  اب ان حالات میں دنیا تو پاکستان فوج کے اس فیصلے کی متوالی ہوجائےگی ناں۔

No comments:

Post a Comment